Pages

BAITULLAH MEHSUD

33سالہ بیت اللہ محسود کا تعلق محسود قبائل کی ایک ذیلی شاخ شوبی خیل سے تھا اور یہ صوبہ سرحد کے ضلع بنوں میں کینٹ کے علاقے داؤد شاہ میں پیداہوئے تھے اِن کے چھ بھائی تھے اِن کے والد مولانا محمد ہارون داؤد شاہ ایک چھوٹی سے مسجد میں
امامت کیاکرتے تھے جوکچھ ہی عرصہ ہوا کہ انتقال کرگئے ہیں جبکہ ان کی والدہ زندہ ہیں جوان کے ساتھ ہی جنوبی وزیرستان میں ہی رہائش پزیر ہیں اوران کے اِن چھ بھائیوں میں سے چھوٹے یحیی خان محسود کو گزشتہ سال ہی بنوں میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیاتھااِ س کے علاوہ بھی اِن سے بڑے بھائی ظاہر شاہ اور ایک چھوٹے بھائی محمداسحاق کابھی ان کے گروپ‎ ‎س‎ ‎بڑاگہرا تعلق بتایاجاتاہے بیت اللہ محسود سے متعلق یہ بھی کہا جاتاہے کہ ان کے اور سیکیورٹی‎ ‎فورسزکے‎ ‎ساتھ7فروری 2005 کوسرروغہ کے مقام پر ایک امن معاہدہ‎ ‎ہواتھاجوکہ کچھ ہی عرصہ بعد ٹوٹ گیاتھااور اِس معاہدے کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی بیت اللہ محسود نے تحریک طالبان پاکستان کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی جس نے جلد ہی تمام قبائلی علاقوں اور سرحد کے مختلف علاقوں میں‎ ‎اپنااثرورسوخ قائم لیااور وہاں کے لوگ اِس تنظیم میں جوق درجوق آنے لگے اور یوں یہ تنظیم دن بدن متحرک ہوتے گئی اور ایک وقت ایسا بھی آیاکہ اِس تنظیم نے اپنے زیر اثر علاقوں پر اپنا مکمل کنٹرول سنبھال لیا اور ایک وقت تو حد یہاں تک پہنچ گئی کہ اِس تنظیم نے کھلم کھلا حکومتی رٹ کو بھی چیلنچ کرناشروع کردیا بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس تنظیم کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ (امیر) بیت اللہ محسود اپنے آپ کو "پاکستانی طالب‎"‎ کہلانا زیادہ پسند کرتے‎ ‎تھے۔بیت اللہ محسود نے اپنی
پہلی شادی بنوں میں کی اِن کی پہلی بیوی سے جب کوئی اولاد نہ ہوئی تو انہوں نے اپنی دوسری شادی گزشتہ سال ہی جنوبی وزیرستان کے ایک‎ ‎قبائلی سردار ملک اکرام
الدین کی بیٹی سے کی (حملے کے وقت بیت اللہ محسوداپنے انہی سسر کے گھر پر قیام
پزیر تھے)بیت اللہ محسود نے ابتدائی دینی تعلیم بنوں کے علاقے داؤد شاہ کے پیپل مدرسے میں ہی حاصل کی اور پھر اِس کے بعد انہوں نے مزید دینی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے شمالی وزیرستان کے صدرمقام میرانشاہ کے ایک مدرسے میں داخلہ لیااور یہاں بھی وہ اپنی طبیعت میں ٹھیراؤ نہ ہونے اور دیگر مصرورفیات کی وجہ
سے تعلیم ادھوری چھوڑکر واپس بنوں چلے گئے جہاں ایف ار بنوں کے علاقے مالی ممن خیل میں انہوں نے کچھ عرصے تک ایک مسجد میں امامت کی اور ان سے متعلق یہ بھی کہاجاتا ہے کہ میرانشاہ میں جب یہ طالب علم تھے تو ان کی اِس دوران افغانستان کے طالبان سے اکثر ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی تھیں کیوں کہ یہ بھی خیال کیاجاتا
ہے کہ میرانشاہ بازار کے مغربی حصے میں جلال الدین حقانی کا اسلامی مدرسہ
جوپہلے ہی انغانستان کے طالبان کامرکز ہواکرتاتھا اِس طرح بیت اللہ محسود کا بھی اِس مدرسے میں آناجاناتھایہ وہ معلومات ہیں جن یہ پتہ چلاکہ بیت اللہ محسود کون تھے ۔

Workshop for sex workers of Karachi

Last month, a 3-day workshop for female sex workers was held in Karachi for the first time in history by gender and reproductive health forum (GRHF) in collaboration with United Nations Fund for Population (UNFPA) to create health awareness among female sex workers.

According to BBC, prostitution is a real fact of Pakistan but due to Islamic country, many refuse to accept this reality. Even after much Islamization, this culture has only grown.
According to BBC report, there are atleast 100000 female sex workers in Karachi only so it was necessary to arrange such an event to prevent AIDS and other sexually transmitted diseases (STDs).

It was very first event of this kind. Women feared to attend it because they could be identified by theirs family members if appeared on media. They were given 1000 rupees per day to attend it. They attended on condition that no media men be allowed to capture photos or footages. Even then about 100 females attended the workshop. After attending it, many women said that they were unaware of these safety precautions.

Many social and religious parties protested against it saying that in Islamic country such events should not be encouraged.
If we think openly, we may conclude that this is good initiative and such programmes should be arranged regularly. There aim is not to create more sex workers or to teach more sex techniques but their aim is to prevent the diseases and promote health. Its a bitter reality that sex workers and prostitution is increasing in pakistan. Such brothels are secret and many a times in private apartments where no one can doubt. Moreover, even if its done openly, it is possible with the little help by police by a fair deal with them.
Sex is a natural desire for all the animals and humans too. It is impossible to control sex working, so it becomes necessary to train workers to prevent many fatal diseases.